یہ اندازہ نہیں تھا کہ15 جنوری جمعتہ المبار ک کا سورج ہمارے لیئے ایک ایسی خبر لیئے آئے گا جسے سہنا بہت مشکل ہوگا،اس دن ایک ایسا شخص ہم سے روٹھ جائے گا جس کے چہرے پہ ہمیشہ ایک دلفریب مسکرائٹ سجی رہتی تھی،خود تو شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز کرکے وہاں چلا جائے گا جہاں سے کوئی بشر واپس نہیں آتا۔
پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کی باعث رات گے تک مصروف رہنے کی وجہ سے صبح انکھ خاصی تاخیر سے کھلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض احباب کو یہ شکوہ بھی رہتا ہے کہ صبح موبائل نمبر بند ملتا ہے مگر آج کا دن ایسا تھا کہ خلاف معمول میرا نمبر بند نہیں تھا۔صبح صبح مسلسل فون کی گھنٹی بجتی رہی ادھ کھلی انکھوں سے نمبر دیکھا تو پیارے بھائی شاکر جنجوعہ کی کال تھی میں سمجھا کہ وہ گاڑی کا معلوم کرنے کے لیئے فون کر رہے ہیں کیونکہ اگلی رات گاڑی رکھالہ،لورہ گھوڑا گلی روڈ کے کھڈوں کی سکت نہ لا سکی تھی اس لیئے بند لائٹوں اور فین بیلٹ کے بغیر شاکر جنجوعہ صاحب کی گاڑی کی معاونت سے گھوڑا گلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔کال ڈراپ نہیں کر سکتا تھا سو کال اٹینڈ کی تو رندھی ہوئی آواز میں شاکر مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا،سمجھنے کی کوشش کی اور جب بات سمجھ آئی تو دماغ کے چودہ طبق روشن ہو چکے تھے،پاوں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی،شاکر کے یہ الفاظ دماغ پر ہتھوڑے چلا رہے تھے کہ “جمیل بھائی کا ایکسڈنٹ ہو گیا ہے،پولی کلینک ایمرجنسی میں ہیں،دعائے صحت کی اپیل چلا دیں “بدحواسی میں سات آٹھ سوال کر ڈالے مگر آگے سے ٹیلی فون لائن بے جان ہو چکی تھی۔
جلدی جلدی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اپیل لکھی تصویر نکالی اور چلا دی،تحریر لکھتے لکھتے انکھوں میں وہ مسکراتا چہرہ تیراکی کر رہا تھا،جس کے چہرے پہ ہمجولی ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ احترام دیکھا،لبوں پہ مسکرائٹ دیکھی تھی،مجھے یقین کامل تھا کہ جمیل کو کچھ نہیں ہوگا،وہ اسی طرح ہشاش بشاش ہوگا،لبوں پہ مسکرائٹ سجائے اسے ڈھیٹ پنجابی سٹائل میں پوچھے گا ”چوہدری صاحب تہاڈا کیی حال اے”.۔یہی یقین کامل میری سستی کا سبب بنا،تھوڑی تاخیر سے نماز جمعہ کی تیاری کرنے لگا کہ اچانک خیال آیا کہ جمیل کا حال تو دریافت کر لوں،دوبارہ شاکر کو کال کی تو بدستور حالت تشویشناک کا جواب ملا،ایک بار پھر مفتی نادر خان صاحب سے نماز جمعہ میں خصوصی دعا کی اپیل کر دی۔دل میں بے قراری سی تھی،بے چینی بیٹھنے نہیں دیتی تھی کوئی دس منٹ بعد دوبارہ کال کی تو شاکر جنجوعہ نے روتے ہوئے بتایا کہ ہمارا جمیل اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
شاکر کے الفاظ بجلی بن کے سماعتوں پہ گرے،ایسا لگا کہ جیسے جسم سے جان نکل گئی ہے،اپنے بیلی کی شہادت کی خبر تو دینا تھی اور بایئس سالہ صحافت میں میرے لیئے یہ مشکل ترین خبر تھی جسے بناتے ہوئے انکھوں سے آنسووں کی لڑی بہہ رہی تھی، کانپتی انگلیوں کے ساتھ بڑی مشکل سے شہادت کی خبر کمپوز کی، اللہ تعالیٰ مجھ گناہگار کو معاف کرے کہ فرط جزبات میں یہ لکھ دیا کہ ”تمام دعائیں رائیگاں گئیں ”مگر میری سوچ کا زاویہ غلط تھا ہم جمیل کی صحت یابی کی دعائیں کرتے رہے رب کریم نے اسے شہادت جیسے رتبے پہ فائز کرنا تھا۔
خیر بے جان ٹانگوں کے ساتھ ہسپتال کی جانب بھاگا،کہنے کو تو گاڑی چلا رہا تھا مگر ظالم وقت سالوں پیچھے لے گیا یہ آج سے 28/29سال قبل کی بات ہوگئی جب گل شبیر عباسی،تنویر،شاکر الرحمن عباسی،ہمارا شہید بیلی اور یہ خاکسار یک جان و قالب تھے،وہ دن انکھوں میں گھوم رہا تھا جس دن جمیل کو پولیس میں بھرتی کروانے کے لیے ہم گاوں سے پنڈی آئے رات فیض آباد کے ایک ہوٹل میں سب دوست ٹھہرے،صبح پولیس لائن میں ہم اپنے بیلی کی حوصلہ افزائی کے لیے ساتھ ساتھ تھے گپیں لگ رہیں تھیں اور جمیل اپنا قد،اپنا سینہ اور اپنا وزن کروا رہا تھا،مشکل مرحلہ دوڑ کا تھا، وہ دوڑ لگا رہا تھا اور ہم اسے حوصلہ دے رہے تھے،ویلڈن جمیل،گڈ،زبردست بس تھوڑا رہ گیا ہے،اس وقت کے الفاظ دماغ پہ ہتھوڑے برسا رہے تھے پھر اللہ نے سن لی اور وہ” پلسی”ہو گیا۔جمیل کیا سرکار کا ہوا ہمارا گروپ ہی ٹوٹ گیا۔تنویر سعودیہ نکل گیا،گل شبیر اپنے جھمیلوں میں پھنس گیا،شاکر الرحمن کی اپنی مصروفیات اور خاکسار شعبہ صحافت میں آگیا،سالہا سال بیت گے،موبائل تھے نہیں اس لیئے ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا اتہ پتہ نہیں،جب کافی سال بعد ایک دن ایک وزیر موصوف کی پریس کانفرس کی کوریج کے لیئے ڈیوٹی اے بلاک لگی تو ساتھی رپورٹرز کے ساتھ اے بلاک میں داخل ہوئے،صحافیوں کی بھی اپنی زندگی ہوتی ہے ہمیشہ اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں آس پاس کا ہوش ہی نہیں ہوتا،ہنسی مزاق میں ادھر ادھر دیکھے بغیر لفٹ کی جانب گے تو کسی نے پیچھے سے کالر پکڑ لیا،میرے اوسان خطاء ساتھی رپورٹر بھی ہکے بکے تھے کہ ایک باوردی پولیس والے نے مجھے پیچھے سے پکڑ رکھا ہے،مڑ کے پیچھے دیکھا تو سامنے میرا بیلی جمیل کھڑا تھا،کالر چھوڑ کے بازو پھیلائے۔لبوں پہ مخصوص مسکرائٹ سجائی،سیلوٹ مارا اور ڈھیٹ پنجابی انداز میں کہا ”او چوہدری صاحب اساں کی پھسا کے تساں زندہ ہو”.کاش وہ لمحہ دوبارہ آ جائے ہم نے کس کے ایکدوسرے کو جھپی ڈالی اور بیٹھ گے،پریس کانفرس بھول گے،چائے آئی اور ہماری گپ شپ جاری رہی،
پھر تو پاک سیکرٹریٹ جانے کا ایک بہانہ مل گیا تھا،مختلف وزارتوں کی بیٹس مل گئیں،ہر دوسرے تیسرے روز جانا ہوتا،گپ شپ کرتے،حال احوال دریافت ہوتا،میں نے جمیل کو ہمیشہ مطمن دیکھا،ہمیشہ اسے کہتا “یار کسی تھانے میں تبدیلی کروا لو،دیکھ رحمان ملک صاحب سے اچھی یاد اللہ ہے تجھے تھانے بھجوا دیتے ہیں ”آگے سے اس کا ایک ہی جواب ہوتا “یار چوہدری صاحب حلال کھان دیو،کیوں مینوں پھسان لگو او” حالیہ کرورنا کی وجہ سے گزشتہ سات اٹھ ماہ سے پاک سیکرٹریٹ کی جانب جانا نہیں ہوا،اور آج جب اس کی جانب جانا ہو ا تو وہ بے جان ہو چکا تھا،وہ ہمیں چھوڑ کے کہیں بہت،بہت ہی دور جا چکا تھا،جہاں اسے نہ ہماری آواز سنائی دے سکتی تھی نہ ہماری آہ و بکا سن سکتا تھا۔ان سوچوں کے دھارے میں ہسپتال پہنچا تو علم ہوا کہ میت پولیس لائن چلی گئی ہے۔ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح میں وہاں ہی پولی کلینک کی فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا،کیونکہ آج بی پی صاحب ہائی بی پی ہو گئے تھے،بھلا ہو پیارے دوست انوار عباسی کا جو ہستپال پہنچ گے،ڈاکٹر صاحب نے دوائی دی اور ہم بوجھل قدموں کے ساتھ پریس کلب کی جانب چل پڑے کیونکہ اس حالت میں ڈرایؤ کرنا ممکن نہ تھا۔
ّآج جمیل الرحمن ہم میں نہیں رہا،چند دن بعد اسے نکا تھانیدار بننا تھا مگر شاید رب کریم کو اسے شہادت کے رتبے پہ فائز کرنا مقصود تھا۔ٍاور جو لوگ دنیا والوں کو پیارے ہوتے ہیں انہیں اللہ کی ذات بھی جلد اپنے پاس بلا لیتی ہیایک دن سب نے لوٹ کے جانا ہے،مگر وہ لوگ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں جن کے لبوں پہ جمیل جیسی مسکرائٹ اور نظروں میں اپنے پرائے کے لیئے احترام رہتا ہے
اسلام آباد پولیس کے چیف قاضی جمیل الرحمن نے بوجھل پلکوں کے ساتھ اپنے جوان کی جسد خاکی اپنے آبائی علاقے میں روانہ کی،یقینا یہ ساعت ان کے لیئے بھی خاصی کھٹن ہوگی کیونکہ چاہے پولیس ہو یا افواج پاکستان ان کے چیفس کے لیئے ان کے جوان بیٹوں جیسے ہوتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم شہید جمیل الرحمن کی شہادت کو قبول فرمائے۔آمین