اسلام آباد(وول نیٹ ورک) اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطین کے علاقے غزہ میں قائم الجزیرہ اور انٹرنیشنل نیوز ایجنسی اے پی سمیت دیگر میڈیا ہاؤسز پر میزائل حملوں اورعمارت کو تباہ کرنے کیخلاف نیشنل پریس کلب کی جانب سے یوم سیاہ منایا گیا، اس موقع پر این پی سی میں سیاہ پرچم لہرائے گئے اور فلسطین کے حق اور اسرائیل کیخلاف زبردست نعرے بازی کی گئی،
اس موقع پر خطاب کرنے ہوئے پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر حامد میر نے کہا کہ اب ہمیں زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے، پوری امت مسلمہ کو اسرائیل کیساتھ اپنے سفارت تعلقات منقطح کرنا چاہیئں اور اسکی ابتداء ترکی کو کرنا چاہیئے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا وہ سب سے پہلا اسلامی ملک ہے، الجلاہ ٹاور میں صرف الجزیرہ اور اے پی کے ہی دفاتر نہیں تھے بلکہ انکے علاوہ بھی تقریبأ ساتھ کے قریب میڈیا ہاؤسز اور پروڈکشن ہاؤسز تھے جنہیں پلک جھپکتے ہی اسرائیلی فورسز نے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ نے کہا کہ اسرائیلی بربریت کو دنیا کے سامنے عیاں کرنے کیلئے پاکستانی صحافیوں کو غزہ جاکر اصل حقائق دنیا تک پہنچانے چاہیئں اور اس حوالے سے ویزہ اور دیگر مسائل کے حل کیلِئے این پی سی کے صدر خواہشمند صحافیوں کی مدد اور معاونت کریں، جب تک اسرائیل میں ظلم بند نہیں ہوتا تب تک كلب پر فلسطین كا پرچم اور سیاہ جھنڈے لہرائے جاتے رہیں گے۔ اور یہ سلسلہ پاكستان بھر كے تمام پریس كلبوں اور میڈیا ہاؤسز تک بھی پھیلایا جائے گا۔
صدر این پی سی نے کہا کہ وہ صحافیوں کو غزہ جانے میں درپیش مسائل کے حل متعلقہ حکام سے بات کریں گے، پاکستانی حکومت کے کل کے رویئے سے لگتا ہے کہ فلسطین کی بجائے اسرائیل کیساتھ کھڑی ہے، وزارت خارجہ کا یہ کہنا کہ فلسطینی سفارتخانے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مہمانوں کو سفارتخانے میں مدعو کرے۔ اس سے لگتا ہے کہ فلسطینی سفارتخانہ پاکستان میں نہیں بلکہ اسرائیل میں واقع ہے، ہم حکومت پاکستان کے اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، انہوں نے اس موقع پر منگل اٹھارہ مئی شام پانچ بجے راولپنڈی پریس کلب میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف یوم سیاہ کے سلسلے میں ہونے والی تقریب میں صحافیوں کو شرکت کی دعوت بھی دی۔ سیکرٹری این پی سی انور کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا اسرائیلی مظالم اور سچ کو دنیا تک پہنچاتا رہے گا، اسرائیل کی جانب سے میڈیا ہاؤسز کی عمارت پر حملہ آزادی اظہار کا گلہ گھوٹنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں ہونے والے ایک ٹویٹ پر اظہار رائے کی آزادی کی باتیں کرنے والے عالمی تنظیمیں اسرئیلی جارحیت پر خاموش کیوں ہیں، سینئر اینکر اور صحافی سید فہد حسین نے کہا کہ پاکستانی صحافیوں کا غزہ جا کر رپورٹنگ کرنے آسان کام نہیں ہے، پاکستانی حکومت کو مصر اور اردن کی حکومتوں سے پاکستانی صحافیوں اور امدادی اور رفاحی تنظیموں کی فلسطین میں محفوظ آمد کو یقینی بنانے کیلئے بات کرنی چاہیئے۔ ترکی آج بھی اسرائیل کیساتھ تجارت کرنے والا بڑا ملک ہے لہذاٰ ہمیں دوغلی پالیسی کے بجائے کھل کر اسرائیل کے خلاف اقدامات اٹھانے ہونگے، خبیب فاؤنڈیشن کے چیئرمین ندیم احمد خان نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو پاکستان سے امدادی سامان لیکر فلسطین جائینگے اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریںگے۔ سینئر صحافی فوزیہ شاہد کا کہنا تھا کہ کل کے او آئی سی اجلاس کے بعد اعلامیہ انتہائی مایوس کن تھا جس میں کوئی ٹھوس موقف اپنانے کے بجائے صرف جنگ بندی کی اپیل پر ہی اکتفا کیا گیا، اسلامی ممالك اور دنیا كے امن پسند لوگوں كو سامنے آكر اپنی ذمہ داریاں ادا كرنی چاہییں كیونكہ فلسطین كی سرزمین پر بچوں اور خواتین اور نہتے شہریوں كے خون كی ہولی كھیلی جا رہی ہے، اس موقع پرتاجر راہنماء کاشف چوہدری نے کہا کہ اسرائیلی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے امت مسلمہ کو اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے کیونکہ اسرائیل اپنی مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدن کو مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ ماہرہ عمران نے کہا کہ او آئی سی کی جانب سے صرف روایتی مذمتی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں ہے امت مسلمہ کو اسرائیل کیخلاف دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ڈان میڈیا كے ورکرز یونین سیکرٹری اسد اللہ ملک نے دنیا تک حق پہنچانے والے صحافیوں كے تحفظ كو یقینی بنانے كے لئے عملی اقدامات كا مطالبہ كیا۔ نوبل مشن كے چیئرمین ڈاكٹر ابوبكر صدیق نے صحافیوں كی جدوجہد كو خراج تحسین پیش كرتے ہوئے سول سوسائٹی كی جانب سے یقین دہانی كرائی كہ ہم پاكستانی میڈیا اور اپنے فلسطینی بھائیوں كٍے ساتھ كھڑے ہیں اورحكومت پاكستان ، او آئی سی …