قارئین اکرام گزشتہ ایک ماہ سے کشیدہ ملکی سیاسی صورتحال،الزام تراشیوں،ملکی وقار سے کھلواڑ اور قومی اداروں کی بے توقیری پر خاموشی کا کڑوا گھونٹ اس لیئے پینے پر مجبور ہوئے کہ کردار کشی کے ساتھ ساتھ لفافی، کافر،غدار،پٹواری،یوتھیا اور جیالاز کے سرٹیفکیٹس کی فیکٹریاں کھل چکی تھیں،سوشل میڈیا کے ٹولز زہر اگلنے لگے اور کھلی ”باچھوں“ کیساتھ ہمارے ازلی دشمن بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ ”ہم اربوں ڈالرز خرچ کرکے بھی افواج پاکستان کی ملک کے اندراتنی کردار کشی نہیں کر سکتے تھے جتنی پاکستانیوں نے خود کر دی“ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ پڑوسی ملک بھارت کے ایک تعصب پسند دفاعی تجزیہ نگار کے ہیں،اس کے الفاظ اس سے بھی سخت تھے جنہیں میں ان سطور میں دہرانے سے قاصر ہوں۔
قارئین اکرام! بطور صحافت کے ادنی طالبعلم اور آزادی اظہار رائے کے سپاہی کے ہم آئین پاکستان کے محافظ اور لولی لنگڑی جمہوریت کے داعی ہیں اور رئینگے، مگر کیا آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ملکی اداروں پر حملہ آور ہونے والوں کو کھلی چھٹی ملنی چاہیے؟یہ سوالات اجکل کے حالات کے تناظر میں زبان زد عام ہیں،حالیہ عید الفطر کی چھٹیوں میں کچھ سابق فوجی جوانوں سے ملاقات ہوئی جن کے جذبات کو نظر انداز کرنا بطور قلمکار ہمارے لیئے ممکن نہیں ہے۔
ایک سابق حوالدارسمیت متعدد فوجی جوانوں کے تند وتیز سوالات کا سامنا تھا،ان کا کہنا تھا کہ فیس بک،ٹوئٹر پر افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والوں نے کھبی ایل او سی پر رات گزاری ہے؟ کھبی وزیر ستان اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ان دیکھے دشمن کے سامنے ان کا کوئی بھائی یا بیٹا سینہ تان کے کھڑا ہوا ہے؟ جب کہا جاتا تھا کہ طالبان مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے تک پہنچ چکے ہیں اس وقت سوات آپریشن میں جانوں کے نذرانے کس نے دہیے؟ دہشت گردوں کی جنت قرار دہیے جانے والے قبائلی علاقوں میں امن کی نوید کس کا لہو لایا؟،زلزلہ آئے یا سیلاب امداد کے لیئے فوج پہنچتی ہے اس وقت یہ سوشل میڈیا کے مجائد میدان عمل میں کیوں نہیں نکلتے؟کیا ہمارا گھر،بیوی بچے نہیں ہیں؟ ہم جان ہتھیلی پر رکھ کے وطن کی حفاظت کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہمیں غداری کے القابات ملتے ہیں، ان سابق فوجیوں کے جذبات سے بھرپور سوالات کا جواب تو میرے پاس نہیں تھا مگر ان سوالات نے مجھے قلم اٹھانے کی ہمت دے دی۔شاید وہ سابق فوجی برائے راست سوالات نہیں پوچھ سکتے تاہم ان کے جذبات کو زبان دینے کی کوشش ہم کرینگے۔
جس کے بعد گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں سوشل میڈیا ٹولز کے استعمال اور فیک نیوز کی روک تھام کے طریقہ کار پر ہونے والی ورکشاپ کے بعد ماہرین سے گفتگو میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ حالیہ دنوں میں ملکی اداروں بالخصوص افواج پاکستان اور عدلیہ مخالف مہم میں بیرونی عناصر کے بجائے اس وطن کے سپوت زیادہ ملوث پائے گئے ہیں۔یہ وہ سوشل میڈیا کے شیر تھے جو اسی پیڑ کو کاٹنے کے درپے ہیں جو انکے گھر کو کڑی دھوپ سے محفوظ رکھتا ہے،شخصیت پرستی میں یہ ہر حد کو کراس کر چکے ہیں،سیاسی مقاصد کے لئے مسجد نبویﷺ کے تقدس تک کو پامال کیا گیا اور پوری امت مسلمہ کے سامنے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دہیے گے۔
سیاسی قیادت بالخصوص میرے کپتان سے یہ سوال تو بنتا ہے ”میرے کپتان آخر کب تلک،پوری دنیا میں پاکستانیوں کو چور تو ثابت کر دیا گیا،سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندی شلواریں لٹکائی گئیں، آپ کے مظائروں میں معصوم بچیاں ملکی اداروں کے لیے چوڑیاں لاتی ہیں،ٹوئٹر پر فخر کے ساتھ سپہ سالار کے نام کے ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں،بھرے جلسوں میں آپ میر جعفر و میر صادق کا خطاب کسے دیتے ہیں،میرے کپتان امریکی مداخلت و سازش کا بیانیہ ٹھیک اسی طرح سراب نکلے گا جس طرح ووٹ کو عزت دو کا نعرہ نکلا،میرے کپتان آپکے نزدیک نیوٹرل ”جانور“ ہوتے ہیں مگر ہم تو اداروں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں،ہم تو اداروں کو آئین کے متعین کردہ دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی داد دیتے ہیں،میرے کپتان آج جب ملکی سلامتی کے اداروں نے اپنے آئینی کردار کے اندر رہنے کا فیصلہ کیاہے تو انہیں متنازعہ بنا نے کی کوششیں کیا ملک کو انتشار میں دھکیلنے کا سبب نہیں بنیں گئیں؟
ملکی سیاسی قیادت سے بھی التماس ہے کہ برائے کرم اپنے سیاسی دنگل میں ملکی اداروں کو بے توقیر نہ کریں۔آج یوکرین کی صورتحال سب کے سامنے ہے،چور ڈاکو ٹھگ کی گردان نے پوری دنیا میں وطن عزیز کو تماشا بنا دیا ہے اگر دنیا میں کہیں تھوڑی بہت عزت ہے تو اسکا سہرا افواج پاکستان اور سپہ سالار کے سر ہے،ورنہ بات کھلے گی تو بہت دور تلک جائے گی،پونے چار سالہ کارکردگی پر بھی بات ہوگئی،وزراء و مشیروں کی دیہاڑیوں کے انکشافات بھی ہونگے،ابھی تو صرف توشہ خانے سے لیکر گوگی کی گوگیاں آشکار ہو رہی ہیں پتہ نہیں آنے والے دنوں میں کون کونسے سکینڈلز منظر عام پر آئینگے۔میرے کپتان آپ کے دیکھا دیکھی آج ”زر داری“ صاحب نے بھی بھونگی ماری ہے۔رحم کریں اس قوم پر،اس ملک پر،اس آئین پر،یہی ملکی سیاسی قیادت کی مصائب میں گری اس قوم پر مہربانی ہوگی۔
انہی سطور میں ہم افواج پاکستان،سابقہ فوجی جوانوں،افسران اور شہداء کی فیملیز کو یہ باور کراتے ہیں کہ سیاسی قیادت اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیئے جتنامرضی کیچڑ اچھالیں ”آپ ہمارے ماتھے کا جھومر ہو“
بقول مسرور انور
میر کارواں ہم تھے،روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنوان تھے،اصل داستان تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پر بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمارا ہے،تم ہو پاسبان اس کے
یہ چمن تمارا ہے،تم ہو نغمہ خواں اس کے