دوسرا رخ ! تحریر : اصغر چوہدری

وزیر اعظم شہباز شریف نے جس کرب کیساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی اور اس کے بعد ان کے دل پر کیا گزری اس پر راوی بہت کچھ لکھ چکے،البتہ جذباتی قوم سمجھنے کا نام ہی نہیں لیتی،ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھتی ہے،دوسرے رخ کو ہمیشہ نظر انداز رہنے کا شکوہ ہے اور یہ شکوہ بجا بھی ہے جواب الشکوہ کی جانب جانے کے بجائے ہم وزیر اعظم کے ماضی کا بطور وزیر اعلی جائزہ لیں تو ہمارے آج کے وزیر اعظم گزشتہ کل ہمیں مینار پاکستان کے سائے تلے شدید گرمی میں اجلاس کرتے بھی نظر آئے تھے، جب ان کے ہاتھ میں پنکھی تھی،نوٹس اور سخت ردعمل ان پر ختم ہے،بیوروکرسی ان کے نام سے کانپتی ہے،پورے پاکستان میں بطور سخت ترین منتظم مشہور و مقبول ہیں آج تک کسی صوبے کو ایسا منتظم نہیں ملا۔
اب جبکہ ان کے ناتواں کاندھوں پر بطور خادم مملکت خداداد کی ذمہ داری ہے تو قوم تصویر کا دوسرا رخ ضرور دیکھے،بابا جی فرماتے ہیں کہ وزیر اعظم کو راتوں میں نیند نہیں آتی،قوم کے مصائب نے انکی انکھوں سے نیند چھین لی ہے، اس کا اندازہ بابا جی اس طرح لگاتے ہیں کہ وزیر اعظم کے کام کرنے کا طریقہ کار اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد بہت دیر بعد لوگوں کو سمجھ آتے ہیں،بطور مثال وہ بتاتے ہیں کہ سگریٹ پینا مضر صحت ہے سگریٹ کے پیکٹ پر وارننگ بھی لکھی ہوئی ہے، مگر لوگ سمجھتے نہیں،اس حکومت نے آتے ہی گولڈ لیف کی ڈبی کی قیمت میں 20 روپے اضافہ کر دیا،یہ بالکل اچانک اضافہ تھا،کیا کوئی ایف بی آر سے ایس ار او جاری ہوا؟ میں نے انکارمیں سر ہلایا تو بابا جی مخاطب ہوئے پتر اس بات کو چھوڑو کہ وہ بیس روپے قومی خزانے میں گئے یا کسی اہم حکومتی شخصیت کے بھائی کی جیب میں خاموشی سے چلے گئے، اصل بات تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے میں ہے کہ حکومت کو اپنی عوام کی صحت کا کتنا احساس ہے،سگریٹ مہنگے ہونگے تو لوگ نہیں پئیں گیے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ قوم بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔
اب دیکھوناں میڈیا ہر وقت لوڈ شیڈنگ پر واویلا کر رہا ہے حالانکہ اس حکومت نے آتے ہی سرکاری اشتہارات کا منہ کھول دیا، لیکن اسی تصویر کے دوسرے رخ کی جانب دیکھو کہ ہم بجلی کتنی فضول میں خرچ کرتے ہیں چار چار لائٹیں لگی ہیں دو تین پنکھا چل رہے ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو گی تو بل بھی کم آئے گا چوبیس گھنٹے بجلی آنے سے جو بل پانچ ہزار کا آنا تھا اب وہ پچیس سو ہوگا اسی سے قوم میں اجتماعی بچت کا شعور پیدا ہوگا۔ سو آپ میڈیا والے لوگ ہر بات پر واویلا نہ کیا کریں،اب دیکھو یہ باتیں کون پھیلا رہا ہے کہ برائلر مرغی کی قیمتوں میں ایکدم اضافہ ہوا اور ایک اہم شخصیت چند دنوں میں کروڑوں کما گئی، الزام تراشیوں نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے برائلر مرغی کی قیمتوں میں اضافے پر اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو حکومت کو اپکی صحت کا خیال ہے جو برائلر مرغی خود کھڑی نہیں ہو سکتی وہ آپ کوصحت مند کہاں سے بنائے گی اور ہاں ہر بات کا رخ حکومتی شخصیات کی جانب کرنا کہاِں کی دانشمندی ہے،وزیر اعظم کی فہم و فراست،عوام سے دلی لگاو کا تم لوگوں کو اندازہ نہیں،یہی حال وزیر اعلی حمزہ شہباز کا ہے وہ اب پنجاب کی خدمت کرینگے تو دنیا دیکھے گی،بابا جی تصویر کے دوسرے رخ دیکھاتے جا رہے تھے کہ میرے صبر کا دامن چھوٹنے والا تھا،بہتری اسی میں جانی کہ پتلی گلی سے نکلا جائے مگر بابا جی کی بات خوردنی تیل سے پیٹرول تک جاپہنچی،بابا جی کا کہنا تھا دیکھو پیٹرول سے گاڑی نے چلنا ہے مگر شوکت عزیز کی آٹو موبو پالیسی نے ملک کا بیڑا ہی غرق کر دیا تھا اب ہر ایرے غیرے کی گاڑی فراٹے بھرتی نظر آتی ہے،سائیکل ناپید ہو چکی،لوگ پیدل چلنا بھول چکے،نتیجہ یہ نکلا کہ ہر شخص بیماریوں کا شکار ہے پیٹرول مہنگا ہوگا،تو گاڑیاں کم استعمال ہونگی،ماحولیاتی الودگی ختم ہوگی اور لوگ صحت مند ہونگے،قوم وزیر اعظم شہباز شریف کی بطور خادم پاکستان مثالیں دیگی، بابا جی کے ابھی نئی حکومت سے متعلق فضائل تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے کہ میں اٹھ آیا۔
میرے سامنے تصویر کا پہلا رخ ہی تھا چھبتے سوالات ذہن میں گردش کر رہے تھے کیا وجہ ہے کہ بقول انکے نااہل سابق حکومت کی تمام تر نالائقیوں کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیوں نہیں ہو رہی تھی،کیا وزیر اعظم ہاوس سے رخصتی کے وقت عمران خان اس ملک کی آدھی بجلی بریف کیس میں ڈال کے اپنے ساتھ بنی گالہ لے گئے تھے؟ ڈاکٹر اشفاق حسن،ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسے معشیت دان کب سے چیخ رہے تھے آج اگر ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے تو قوم کے درد میں بے قرار رہنے والے وزیر اعظم شہباز شریف جو بقول سخت ترین ایڈمنسٹریٹر ہیں ایک ایک روپیہ ایک ایک ڈالر بچائیں گئے یا لاو لشکر سمیت بیرونی دوروں پر نکل جائیں گئے،مختلف منصوبوں کے روزانہ کی بنیاد پر افتتاح پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بجائے وزیر اعظم ہاوس میں بیٹھ کر وڈیو لنک کے زریعے اجلاس و افتتاح کیوں نہیں کر سکتے؟ درجنوں پروٹوکول گاڑیوں کے ہمراہ مختلف جگہوں کے دوروں کے بجائے قوم کے محبوب لیڈر دفتر میں بیٹھ کے احکامات جاری کیوں نہیں کر سکتے؟ وزیر،مشیروں،سرکاری افسروں کی فراٹے بھرتی لینڈ کروزوں کے پیٹرول ختم کیوں نہیں کرتے؟ قوم سے قربانی مانگنے والے اپنے دفتر کا اے سی بند کیوں نہیں کرتے؟ میڈیا انڈسٹری کو کروڑوں روہے کے تشہری اشتہارات سے تو یہ نہیں لگتا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی ہے۔

انصاف تب ہوگا جب اے سی چلانے والا صارف 50 روپے یونٹ خریدے اور بلب و پنکھا چلانے والے صارف سے پانچ روپے یونٹ لیا جائے،لینڈ کروزر والا پانچ سو روپے لیٹر پیٹرول و ڈیزل افورڈ کر لے گا مگر موٹر سائیکل والے کے لیے سو روپے لیٹر بھی مشکل ہے، قوم کو معاشی گرادب سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلے ضرور کریں مگر کچھ مشکلات اشرافیہ کے ناتواں کاندھوں پر بھی ڈال دیں،زیادہ نہیں صرف ایک سال کے لیے اشرافیہ کو صرف تنخواہ دیں مراعات واپس لے لیں چاہیے وہ مقننہ ہو یا مقتدرہ،عدلیہ و انتظامیہ سب سے یکساں سلوک ہی تصویر کے دوسرے رخ کو روشن کریگا،لفاظی صرف انتخابی تقریروں میں اچھی لگتی ہے انتظامی فیصلے خود بولتے ہیں۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں