ہزارہ دویژن کا لوک ادب !! پروفیسر حافظ نصیر احمد چوہدری/کالم نگار

ہزارہ ڈویژن جہاں خوبصورت پہاڑوں ، آبشاروں، میدانوں اور وادیوں کا مرکز ہے، وہیں یہاں کے رہنے والے اپنی سادگی، بہادری، مہمان نوازی اور دلیری کے حوالے سے پُوری دُنیا میں مشہور ہیں۔ ہزارہ ڈویژن کے رہنے والوں کو “ہزارہ وال” کہا جاتا ے۔ ہزارہ کا قدیم نام “ارشا” یا “اورش” ہے۔ ہندوؤں کی مشہور کتاب مہا بھارت میں اس کا ذکر”ارگہ” کے نام سے کیا گیا ہے۔ 0326 قبل مسیح کی تاریخ میں اسکا ذکر ملتا ہے۔” ابی سارا” اُس وقت یہاں کا حاکم تھا۔ ہزارہ ڈویژن ماضی میں موریہ سلطنت، کشن حکومت کے علاوہ ترک وہندو حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا ہے۔ ہندو راجاؤں میں “راجارسالو”یہاں کا ایک اہم راجہ تھا۔ ” تاریخ ہزارہ ” کے مصنف ویس کے مطابق یہاں ترکوں کا ایک قبیلہ قارلق ہزارہ، امیر تیمور نے چھوڑا تھا۔ جس کے نام سے یہاں کا نام “ہزارہ” رکھا گیا۔ عہد مغلیہ میں مانسہرہ اور گردونواح کو “پکھلی سرکار” کہا جاتا تھا۔

ہزارہ ڈویژن کی اپنی بہترین تہذیب ہے ۔ یہاں کے رہنے والے لوگوں کی جُدا گا نہ ثقافت ہے۔ یہاں کے لوگ یعنی ‘ہزارے وال، ہندکو، پہاڑی، گوجری اور پشتو زبانیں بولتے ہیں۔ ‘ہند کو’ یہاں سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ ہزارہ کا ادب بڑا وسیع و زرخیز ہے۔ ہر زبان کی طرح ہند کو زبان کا لوک ادب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بالکل بجا طور پر کہا جا تا ہے کہ “جس زبان کا لوک ادب نہیں ہوتا وُہ زبان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی”. ہند کو زبان میں لوک گیت اور لوک کہانیاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ہزارہ وال اپنی زبان و ادب کے حوالے سے خاصے باخبر ہیں۔ ہند کو زبان میں گیت اور ماہیا کی بہترین اصناف پائی جاتی ہیں۔ ماہیا ہزارہ کے قدیم دیہی علاقوں اور معاشروں میں بڑا مقبول رہا ہے۔ چونکہ پُرانے وقتوں میں زندگی اتنی مصروف نہیں ہوتی تھی۔ تو لوگ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے جذبات و احساسات کا ذکر بھی بہترین انداز میں کرتے تھے۔ اِن انداز میں ایک بے مثل انداز “ماہیا” کا تھا۔ ماہیئے کی صنف پنجابی زبان اور ہند کو زبان میں ایک خاص تہذیبی و ثقافتی اہمیت رکھتی ہے۔ ماہیا اور ہزارہ کی ثقافت پر بات کرنے سے پہلے ذرا ماہیئے کی تعریف کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ مشہور لکھاری عارف فرہاد اپنی کتاب “اُردو ماہیے کی خدوخال” میں لکھتے ہیں:

“لفظ”ماہیا” “ماہی ” سے نکلا ہے۔ فارسی زبان میں “ماہی” مچھلی کے معنی دیتا ہے۔ جبکہ پنجابی زبان میں ماہی کا لفظ محبوب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی محبوب کے لیے کہا گیا گیت” ماہیا” کہلاتا ہے”۔ ہندکو زبان وادب میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو “مائیے” کی صنف میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اور اِس صنف سے ہمیں قدیم ہزارہ کے باسیوں کی زندگی اور اُن کے مسائل ومشاغل کا پتہ چلتا ہے۔ ہزارہ کا علاقہ چونکہ پسماندہ ہے۔ اور اسکی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس و جامع منصوبہ بندی پہلے ہوئی اور نہ ہی اب ۔ خیر ہزارہ کے لوک گیتوں اور ماہیوں میں ہمیں اُس وقت کے لوگوں کا اپنے علاقوں سے پردیس میں آکر محنت مزدوری کرنے کا نہ صرف پتہ چلتا ہے بلکہ پردیسوں کا انتظار دیس والے کس انداز میں کرتے ہیں۔ یہ بھی ان ماہیوں میں عیاں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر۔
کوئی کبوتر ڈبے وے ڈبے دیسی نِت ملدے پردیسی کدے وے کدے
پردیسی تو چلے گئے۔ اب دیس میں اُن کا انتظار کیسے ہوتا ہے۔ یہ بھی ہزارہ کے ماہیوں میں ملتا ہے۔
میں چرخا کتنی آں۔۔۔۔راہ بچ کھل کے ماہیے دا رہ تکنی آں

محنت مزدوری کے علاوہ ہزارہ کے لوگ ماضی میں بھی فوج اور دیگر سویلین اداروں میں ملازمت بھی کیا کرتے تھے۔ جب اِن ملازمین کو چھٹیاں نہ ملتیں تو دیس والے اس انداز میں اسکا ذکر کرتے تھے۔
کوئی گائیاں وے چرآئیاں۔۔۔۔۔۔ مدتاں گذر گئیاں ماہی چھٹیاں وِی نہیں آیاں

پُرانے وقتوں میں ہزارہ کے اندر “کچے مکان” ہوتے تھے۔ اور مکان کے کنارے کو “بلی” بولتے تھے۔ اِن مکانات اور اِن کے اندر رہنے والے نوبیاتا دلہن کے جذبات جب اسکا خاوند پردیس جاتا ہے۔ ہزارہ کے لوک ادب میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
کچے کوٹھے چوندے نیں۔۔۔جنھاں کولوں سجن جُدابُوئے بند کر روندے نیں۔
میری بلی اُتے بگلابول گیا۔۔۔۔ لت مارکہ کجلہ ڈہول گیا۔

ہزارہ کے باسیوں کا بڑے شہروں بالخصوص کراچی کی طرف کام کے لیے جانا ایک معمول تھا۔ اسکی عکاسی یوں ہوتی ہے۔ ۔
بوئےآں لدؤ لڑو۔۔۔۔۔ میں اتھے نہ رہندی مانھ سدا کراچی کھڑو

ہزارہ وال کے کلچر میں پُرانے دور میں گندم کو کاٹنے کے بعد بیلوں سے تھریشر کا کام لیا جاتا تھا۔ اب تو مشینیں آگئی ہیں۔ مگر اُس دور کو ہزارہ کے لوک ادب میں یوں بیان کیا جاتا ہے۔
کنٹرکاں دِی وئے گائی ہوسی۔۔۔۔اج تک نہیں سُنیا کسے توڑ نبھائی ہوسی

اِسی طرح گندم کی بیلوں کے ذریعے تھریشر کو بھی ہزارہ کے لوک گیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔
کوٹھے اتے راہ ہوسی۔۔۔۔۔۔دانداسی کہن آئے آں کل کنڈاں دِی گائی ہوسی

“داند” اصل میں بیلوں کو کہا جاتا ہے۔ کنڈکاں سے مراد گندم اور گائی کا مطلب تھریشر کرنا ہوتا ہے۔ اس موقع پر کسان اکٹھے ہوتے اور اس طرح کے لوک گیتوں کے ذریعے اِس موقعہ کو زندہ و جاوید بنا دیتے تھے۔ اِسی طرح ہزارہ کے کسان کی محنت ومشقت کو بھی لوک گیتوں میں یا ماہیئے کی صورت میں بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
رشاں دی آں کے خوشیاں۔۔۔۔۔گڈا سٹیا تے چائی کھاری

“رشاں” پرانے دور میں ایبٹ آباد شہر اور کاکول کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا تھا۔ اِس مصرعے میں وہاں کے کسان کی بالخصوص اور عام ہزارہ کے کسان کی بالعموم مشقت کا ذکر ہے کہ ایک کام کے بعد دوسرا کام اِس کا منتظر ہوتا ہے۔۔
“گڈا سٹیا” مطلب گھاس کی گھٹڈی لدیا اور “چائی کھاری”(ٹوکری اُٹھانا)۔

اِسی طریقے سے چاول کی فصل کو “تائیں” کہتے تھے۔ اِس حوالے سے بھی مقامی ثقافت ہماری رہنمائی کرتی ہے۔
جبھاں دِی آں تائیاں نیں۔۔۔۔۔۔تساں جی نیں کیتی آساں توڑ نبھائیاں نیں

ہزارہ کے لوک ادب میں “جندر”یعنی کہ پانی کے پریشر سے چلنے والی چکی بھی اہم تھی۔ “جندر” ہزارہ میں پرانے لوگ علی الصبح آٹا لے کر جاتے تھے۔ “جندر” کا ذکر ہمارے لوک ادب میں ہمیشہ رہا ہے۔ ابھی اختر رضا سلیمی نے “جندر” کے نام سے افسانہ لکھا ہے۔ مگر جندر کا ذکر پرانے ادب میں بھی موجود ہے۔
کوئی پانڑی جندراں دِے۔۔۔۔ماہیے اوگاندے جیہڑے سڑے ہوئے اندراں دے

ہزارہ کی ثقافت میں ‘مہمان نوازی’ اور مہمان کا اکرام ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہمانوں کے لیے الگ کمرہ بنوایا جاتا ہے۔ جسے مقامی زبان میں ” ڈیڈی” یعنی بیٹھک یا مہمان خانہ کہا جاتا ہے۔ ہند کو ادب میں بھی “ڈیڈی” یا بیٹھک دونوں کا ذکر ملتا ہے۔
ڈیڈی آں سنگھلاں کس لائی آں۔۔۔۔۔۔۔تو سُتارہیاہیں میں کھیڈ آئی آں
بیٹھک دِی باری ایہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موتوں کولوں ڈھڈی جیہڑی ہجر بیماری ایہہ

اس طرح پرانے وقتوں میں دیواروں کے اندر مکئی یا گندم کی فصل کو ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ سوراخ دیواروں میں رکھے جاتے تھے۔ جنھیں”آلہ” مقامی زبان میں کہا جاتا تھا۔ اور دیواروں کو “کند” کہا جاتا تھا۔ شاعروں نے اِس پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔
میری کندھاں بچ آلہ ایہہ۔۔۔۔۔۔۔ سیرصوبنڑ ملیا ماہیا فِروِی کالاایہہ

اِسی طرح ہزارہ کے لوک ادب میں بیٹیوں کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بیٹی کو “دی یاتی” کہا جاتا ہے۔ بیٹیوں کی رُخصتی کے حوالے سے ہند کو لوک ادب میں یوں اظہار کیا گیا۔
چنڈ سریاں دا ساگ پتری پر گئی آ۔۔۔۔۔۔تیاں پرایامال ڈولی ٹر گئی آ

بہن بھائی کی محبت کے حوالے سے لوک ادب بھرا ہوا ہے۔ اور اِس مقدس رشتے کے حواے سے ہند کو لوک ادب میں یوں کہا گیا۔
پچھی پری وِے بٹنگیاں دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اج روٹی میں کرساں ویرے دے آں سنگیاں دی

ہزارہ کے لوک ادب میں چرند، پرند اور مختلف درختوں جو کہ یہاں پائے جاتے ہیں کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ بٹنگیاں(پہاڑی علاقے کا مزیدار پھل)، اخروٹ ، خوبانی ، داکھاں یا داخاں (انگور کی قسم کا پھل) وغیرہ کا ذکر ہو یا پھر چیڑ، صنوبر، دیوداراور چنار وغیرہ کا ذکر بھی ہند کو لوک میں بکثرت ملتا ہے۔

ہزارہ کے قدیم باسی جس انداز میں زندگی گذارتے تھے۔ اُس کا ذکر ہزارہ کے لوک ادب میں جا بجا ملتا ہے۔ گھاس کٹائی میں سب لوگوں کا ملکر گھاس کاٹنا جسے مقامی زبان میں “لیتری” کہا جاتا تھا۔ اِسی طرح گھاس کو جمع کر کے ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا تھا جسے ہزارہ کی مقامی زبان میں “گھاڑا” کہا جاتا تھا۔

اِسی طرح مکئی کی فصل کو کاٹ کر ایک جگہ اکٹھا جمع کیا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں “کڑب یا”کڑو” بولا جاتا ہے۔ پُرانے دور میں جب ہزارہ وال کے گھروں میں الماریاں نہیں ہوتی تھیں تو برتن وغیرہ رکھنے کے لیے دیوار کے ساتھ لکڑی کے ٹکڑوں سے ایک جگہ بنائی جاتی تھی جسے مقامی زبان میں “کانش” یا”کانشا” بولا جاتا تھا۔ چونکہ پُرانے وقتوں میں کچے مکانات ہوتے تھے۔ تو اُن کے لیے لکڑی سارے لوگ مل کر لاتے تھے۔ اس میں وہ لکڑی جو کہ سارے مکان کے بوجھ کو سہارا دیتی تھی۔ مقامی زبان میں اِسے “کڑی” بولتےتھے۔ اور”کڑی” کو جنگل سے لانے کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔ سب گاؤں کے لوگ ملکر یہ لکڑی لاتے تھے۔ اور پھر جس کے گھر میں لائی جاتی تھی وہاں کھانا کھایا جاتا تھا۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر ہزارہ کی ثقافت میں ڈھول ، بھنگڑا (جسے مقامی زبان میں”کمبر” کہتے تھے)۔بڑا ہی دلکش پہلو تھا۔ اِس کے علاوہ ہزارہ کی بہترین رسموں میں سے سب لوگوں کا ملکر شادی بیاہ کے موقعہ پر شادی کے گھر میں کام کرنا ہوتا ہے۔ شادی کو مقامی زبان میں “بیاہ” کہا جاتا ہے۔

ہزارہ ڈویژن اپنی الگ تاریخ وثقافت کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں کی ثقافت اور لوک ادب بے مثال ہے۔ ہزارہ کی خوبصورتی، دلکشی اور رعنائی کو لوک گیتوں میں بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ لوک گیت و ادب ایسا تخلیقی کرشمہ ہے۔ جس میں سماج کا ہر شخص شریک ہوتا ہے۔ لوک گیت اصل میں عوامی گیت ہیں۔ اِن سے نہ صرف ہم ہزارہ کی اعلیٰ و بہترین تہذیب و ثقافت سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ یہ عام آدمی تک ہماری رسائی آسان کرتے ہیں۔ ہند کو زبان کے ماہیےاور گیت سے عام ہزارے وال کے جذبات و احساسات تک ہم آسانی سے رسائی حاصل کرتے ہیں ۔ اِن سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں کیا کیا مسائل ومشکلات ہیں۔ اور وہ کیا سوچتا ہے۔ ہزارہ کے لوک ادب سے ایک چیز بڑی واضح ہوتی ہے۔ وُہ اِس علاقے کی محرومی ہے۔ اِس علاقے کو اس کا جائز حق نہیں دیا گیا۔ آج کے ہزارہ کا نوجوان اپنے لیے نہ صرف عزت واحترام مانگتا ہے۔ بلکہ اپنے علاقے کی شناخت کے حوالے سے بھی بڑا ہی حساس ہے۔ ہزارہ کو الگ صوبہ بنا کر اِس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ہر ہزارہ وال، کی دِلی خواہش و تمنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں